کیا ایسے سازشی
بھارت کے دوست ہوسکتے ہیں؟
از: ڈاکٹر ایم اجمل فاروقی ، ۱۵- گاندھی روڈ، دہرہ دون
ممبئی اے. ٹی. ایس نے
مالیگاؤں بم دھماکہ کیس میں جو چارج شیٹ داخل کی ہے
اس کی جو رپورٹنگ میڈیا میں آرہی ہے اس میں
بتایاگیا ہے کہ کرنل پروہت کا گروہ ہندوستان کو ایک ہندو راشٹر
بنانا چاہتا تھا۔ فوج میں پروہت کے ایک معاون افسر جو ابھی
فوج میں ہے جو کہ سرکاری گواہ بن گیا ہے نے بتایا کہ
ہمارے لوگوں کی ایک میٹنگ ہوئی تھی جس میں C.I.A کا آدمی اور ”را“ کا سابق افسر بھی
شریک تھا۔ یہ میٹنگ ۱۲/اپریل ۲۰۰۸/
کو
بھوپال کے رام مندر میں ہوئی تھی، خود پروہت نے اپنے بیان
میں کہا ہے کہ وہ اسرائیل کی مدد سے یہ مشن پوراکرنا
چاہتا تھا۔ اسرائیل نے ہمیں ہر ممکن مدد کا یقین
دلایا تھااور ہم سے پہلے ہوم ورک کرنے کے لیے کہا تھا۔ (دینک
جاگرن ۲۱/۱/۲۰۰۹/، ہندی
ہندوستان ۲۳/۱/۲۰۰۹/)
یہ خبریں اخباروں اور میڈیا
میں ایک دن جھلک دکھاکر غائب ہوگئیں۔مگر حیرت اور
تشویش کی بات یہ ہے کہ میڈیا، سیاسی
پارٹیاں، سیکولر دانشور، قانون داں، قومی مفاد کے ٹھیکیدار،
پوری مرکزی حکومت کے ذمہ داران، دفاعی امور کے ماہرین،
بھگوا بریگیڈ کے کارکن سب کے سب خاموش رہے۔ حیرتناک بات یہ
ہے کہ یہ تمام انکشافات ثبوتوں کے ساتھ ہندوستان کی ریاستی
پولیس کے خصوصی دستہ نے عدالت میں لگائے ہیں ، کسی
مولوی یا مدرسہ کے ذمہ دار یا لالو، ملائم نے نہیں لگائے
ہیں۔ اتنی بڑی سازش کی خبر A.T.S. اپنی 4500صفحات کی
چارج شیٹ دیتی ہے جس میں ہمارے دو نئے نئے سب سے عزیز
اور ہمدرد دوست ممالک کے حوالہ سے یہ بات بتائی جاتی ہے کہ وہ
ملک کو توڑنا چاہتے ہیں یہاں ”ہوم ورک“ کے نام پربم دھماکوں اور
”ردِعمل“ کی جھڑی لگانا چاہتے ہیں اورپورے ہندوستان کے کان پر
جوں نہیں رینگتی۔ کہیں سے امریکہ اور اسرائیل
کے ناپاک ارادوں کے خلاف آواز نہیں اٹھتی۔اس کا مطلب یہ
ہے کہ اگر ملک توڑنے کی سازش پاکستان، بنگلہ دیش، سعودی عرب کے
حوالہ سے آئے تو پورے ملک کو تشویش ہوگی، مگر ہمارے دوست نما دشمن آستین
کے سانپ اگر ملک توڑنے کی سازش کریں تو سارے ”دیش بھگت“ خاموشی
اختیار کرلیں۔ غور کرنے کی بات یہ ہے کہ کیاان
الزامات میں کچھ بھی ناممکن یا ایسا ہے کہ جس پر اِن
ممالک کی گذشتہ کارستانیوں کی روشنی میں بعید
از قیاس سمجھا جائے۔ سب جانتے ہیں کہ اسرائیل اور امریکہ
کے تعلقات کتنے قریبی بلکہ جسم و جان کی طرح رہے ہیں
مگراسرائیل نے تاریخ میں بار بار امریکہ کو نقصان پہنچایا
ہے یا پہنچانے کی کوشش کی ہے تاکہ اسے اشتعال دلایا جائے۔
قریب ترین مثال یمن کی ہے جہاں امریکی سفارت
خانہ پر اکتوبر ۲۰۰۸/ میں حملہ
ہوا کئی لوگ مارے گئے۔ دسمبر ۲۰۰۸/
میں
یمنی صدر علی عبداللہ صالح نے پریس کو بتایا کہ
پکڑے گئے ملزموں کا تعلق اسرائیلی خفیہ ایجنسی
موساد سے تھا۔ جہاں تک امریکی CIA کا تعلق ہے سب جانتے ہیں کہ وہ کس طرح
”دوست ممالک“ میں دوستوں کو ”تحفظ“ دیتی ہے اورانہیں
مرحوم شاہ فیصل اور ضیاء الحق کی طرح صاف بھی کراتی
رہتی ہے۔ ہندوستان میں CIA کی کارستانیاں ایسی تھیں
کہ شریمتی گاندھی کے زمانہ میں CIA کا ایجنٹ ویسے ہی گالی
تھی جیسے آج القاعدہ اور ISIہے۔
کیا CIA نے اپنا کردار بدل لیا ہوگا؟ ابھی
حال میں ہی یہ تنازعہ سامنے آیا کہ بیرونی خفیہ
ایجنسی ”را“ کے اعلی ترین افسر کو CIAنے
اپنا ایجنٹ بنارکھا تھا۔ اور راز کھلنے پر اسے نیپال کے راستہ
باہر نکال کر امریکہ بھیج دیا۔ بجریہ وارروم لیک
کے معاملہ میں بھی بیرونی ایجنسیاں ملوث پائی
گئی ہیں۔ سابق N.D.A
حکومت میں شور اٹھا تھا کہ پرائم منسٹرہاؤس PMO میں ایک امریکی بھیدی
"Mole" ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ خفیہ ایجنسیوں
پر اربوں روپیہ اس لیے خرچ کیے جاتے ہیں کہ وہ اپنے ملکی
مفادات کے لیے دنیا بھر میں کاروائیاں کریں۔
ان کاروائیوں کے مکروہ چہرہ اور انسانیت کش اثرات دنیا بھرمیں
دیکھ رہے ہیں۔ ہر جگہ یہ طاقتور ایجنسیوں کا
خفیہ کھیل ہے جو انسانوں کی بربادی، قتل وخون کی
شکل میں کھیلا جارہا ہے۔
پروہت نے اپنی تفتیش کے دوران
خاص طورسے اسرائیلی مدد کا ذکر کیا ہے۔ اوراسرائیلی
رہنمائی یعنی ”ہوم ورک“ یا ”ابتدائی کام“ کا ذکر کیا
ہے۔ اس تعلق سے موساد کے ایک منحرف ایجنٹ وکٹر اوسٹروسکی Victor
Ostrovsky کی کتاب
”فریب کا دوسرا چہرہ“ نظروں سے گذری اس میں سے کچھ مثالیں
ان واقعات کی پیش ہیں جو کہ قریب کے زمانہ میں وقوع
پذیر ہوئے ہیں اور جس سے اس ایجنسی کے خبیث اور
مکروہ چہرہ سے پردہ ہٹ جاتاہے۔ اور تعجب ہوتا ہے کہ ایسے دھوکہ باز
اور پیچھے سے وار کرنے والے ملک کو ہم اپنا سب سے قریبی دوست
بتارہے ہیں اس سے اربوں ڈالر کے ہتھیار خرید رہے ہیں۔
اس کے ایجنٹوں کو اپنے یہاں حفاظت کے لیے بلارہے ہیں کیا
ایسا ممکن نہیں ہے کہ وہ ان تمام مفادات کے حصول کے لیے ہی
ہمارے ملک میں دھماکوں، قتل، دہشت اور فساد کا بازار بالواسطہ اور بلاواسطہ
کرارہا ہو؟ چند مثالوں سے یہ بات واضح ہوسکتی ہے۔
(۱) ۱۴/اپریل
۱۹۸۶/ کو ایک سو
پچاس امریکی بمبارطیاروں نے لیبیا پر ساٹھ ٹن بم
گرائے۔ اس حملہ میں لیبیا کے چالیس شہری،
کرنل قذافی کی منھ بولی بیٹی شہید ہوئی۔
اس حملہ پرامریکہ کو اکسانے کے لیے موساد نے آپریشن ٹروجن ۱۳اور ۱۸/فروری ۱۹۸۶/
کی
درمیانی رات کو شروع کیا۔ دو اسرائیلی کشتیاں
جو میزائیلوں اور دوسرے اسلحہ سے لیس تھیں اور ایک
ہیلی کاپٹر بھی تھا بحرروم میں آبنائے سسلی سے گذر
کر طرابلس کے پاس لیبیا کے پانی میں داخل ہوگئیں اس
کشتی سے بارہ کمانڈو چار چار کی شکل میں باہر نکل کر تیزرفتار
کشیوں ”پرندہ“ میں ساحل کی طرف چل پڑے۔ ساحل پر اترکر
انھوں نے ایک سبزرنگ چھ فٹ لمبا اور سات انچ موٹا سلنڈر ”ٹروجن“ اٹھالیا
اور ساحل پر کھڑی وین میں سوار ہوکر طرابلس کے لیے روانہ
ہوگئے۔ طرابلس میں یہ وین الجمہوریہ اسٹریٹ کی
ایک رہائشی عمارت کے عقب میں پہنچ گئی۔ اور یہ
سلنڈر ایک قالین میں لپیٹ کرایک پانچ منزلہ عمارت میں
لے جایا گیا اور پانچویں منزل کے ایک اپارٹمنٹ میں
ڈش انٹینا لگاکر نصب کردیاگیا۔ اسی عمارت سے تین
بلاک دور کرنل قذافی کا ہیڈکوارٹر اور رہائش تھی۔ موساد
نے یہ اپارٹمنٹ کرایہ پر لے رکھا تھا۔ اور چھ مہینہ کا
کرایہ پیشگی اداکردیاگیا تھا۔ اس کے بعد یہ
کمانڈو واپس کشیوں کے ذریعہ چلے گئے۔ اس سلنڈر میں پیغامات
نشر کرنے کے آلات تھے۔ اس آلے کا I.D.P. نیوی جہاز سے رابطہ ہوتا ہے۔ جو قریب ہی
سمندری ساحل پر کھڑا رہ کر پیغامات نشر کرتاہے۔ ان پیغامات
کو یہ سلنڈر وصول کرکے دوبارہ نشر کرتا ہے۔ مارچ کے آخر تک امریکیوں
نے اس ”ٹروجن“ سے پیغامات وصول کرنے شروع کردئیے جس میں ایسے
پیغامات تھے جو دنیا بھر کے لیبیائی سفارت خانوں کے
لیے ہوتے تھے جس میں انھیں دہشت گردی کے احکامات جاری
کیے جاتے تھے۔ امریکی ان پیغامات کو پکڑ کر سمجھے
کہ لیبیا مغربی ممالک پر حملہ کرارہا ہے اس لیے وہ بھڑک
گئے۔ موساد بالکل یہی اطلاعات مغربی ممالک میں بھی
فراہم کرتا تھا جس سے ایسا لگتا تھا کہ لیبیا سے پکڑے گئے
احکامات قطعی صحیح ہیں۔ اسی دوران مغربی برلن
کے لابیلے کے ڈسکو تھیک میں دھماکہ ہوا اور امریکی
شہری ماراگیا۔ الزام لیبیا کے سرلگاکر بمباری
کردی گئی۔ اسرائیل کا مقصد پورا ہوگیا۔
(۲) اردن
امریکہ کا سب سے بڑا حلیف ہے وہاں موساد نے دوستی کا حق اس طرح
ادا کیا: موساد نے فیصلہ کرلیا ہے کہ اردن کی حکومت غیرمستحکم
کرنے کے لیے وہاں انتشار پھیلانے کا یہ اچھا موقع ہے۔
انتشار پھیلانے کے لیے ہم بہت سی جعلی کرنسی مارکیٹ
میں پھیلاکر حماس کی طرز پر مذہبی انتہاپسندوں کو مسلح
کرکے ”اخوان المسلمون“ کو مضبوط کرکے، استحکام کے علمبردار کسی رہنما کو قتل
کرکے اور یونیورسٹیوں میں فساد کراکر حکومت کو سخت
اقدامات پر مجبور کردیا جائے گا اورحکومت اپنی حمایت کھو دے گی۔
(صفحہ ۱۶۴)
(۳) مشرق
وسطیٰ میں دوسرے سب سے بڑے امریکہ دوست مصر کے ساتھ موساد
کا رویّہ یہ تھا: موساد افغانستان کے ذریعہ مصری بنیاد
پرستوں کو ہتھیار دے رہی تھی۔
(۴) کویت
کی پائپ لائنوں پر حملہ کرنے کی تربیت عراق کے لوگوں کو موساد ہی
دے رہی تھی۔ (صفحہ ۱۳۸)
(۵) عراق -
ایران جنگ کے دوران موساد نے جرمنی ڈنمارک کے توسط سے ایران کے
فینٹم امریکی جہازوں کے لیے فاضل پرزہ اورہوابازوں کو
جرمنی میں تربیت دی۔ اور بڑی مقدار میں
اسلحہ گولہ بارود وغیرہ ایران کو فروخت کیا۔ (صفحہ ۱۸۲، ۲۵۰)
(۶) مصر میں
اخوان کو افغانستان سے اسلحہ بھیجنے کی لائن بڑی طویل تھی۔
اس کے لیے وہ صحرائے سینائی میں گھومنے والے خانہ بدوشوں
کو استعمال کرتے تھے۔ ایک دفعہ مصر میں اسلحہ داخل ہونے کے بعد
وہ مطلوبہ لوگوں تک پہنچایا جاتا تھا اس اسلحہ کے معاوضہ کے طور پر موساد
مصر کے اندر ایسے ٹھکانے بتاتی تھی جس پر حملہ مطلوب ہوتا تھا۔
ان کا ہروقت ایک مقصد ہوتا تھا غیرمستحکم، عدم استحکام (صفحہ ۲۲۲)
(۷) جنوبی
افریقہ میں سیاہ فام لوگوں پر ادویات کا تجربہ موساد نے
کرایا۔ (صفحہ ۲۵۶)
(۸) ایران
- عراق جنگ ختم ہوچکی تھی۔موساد امریکیوں کو صدام
حسین کا تختہ الٹنے کو کہہ رہی تھی اور ساتھ ہی واشنگٹن میں
اسرائیلی سفارت خانہ کے ذریعہ صدام حسین کو اس کی
زندگی اور حکومت پر مختلف حملوں سے خبردار بھی کررہی تھی۔
موساد صدام حسین کو علاقہ میں اپنا بڑا اثاثہ سمجھتی تھی۔
کیونکہ جہاں تک بین الاقوامی سیاست کا تعلق ہے صدام اس سے
بے بہرہ تھے۔ وہ کوئی ایسی احمقانہ حرکت کرسکتے تھے جس سے
موساد فائدہ اٹھاسکتی تھی۔ جس چیز سے موساد خوفزدہ تھی
وہ عراقی فوج کی تعداد تھی۔ ۱۹۸۸/ میں موساد نے اسرائیلی
وزیر خارجہ کو مشورہ دیا کہ وہ عراق کے ساتھ امن مذاکرات ترک کردے۔
اس وقت امریکہ اور فرانس کے آشیرواد سے اسرائیل ، اردن اور عراق
کے مابین خفیہ طورپر امن بات چیت ہورہی تھی جس میں
مصر اہم کردار ادا کررہا تھا۔ موساد نے سارے معاملات کو ایسا رخ دیا
جس سے ظاہر ہونے لگا کہ عراق جیسے امن مذاکرات سے خوش نہیں تھا۔
موساد امریکہ کو یہ باور کرادیا کہ عراق کچھ اور چاہتاہے۔
جنوری ۱۹۸۹/ میں اسرائیلی
نفسیاتی جنگی مشین نے صدام حسین کو دنیا کے
سامنے ایک ظالم خطرناک آدمی کے طورپر پیش کرنا شروع کردیا۔
اس نے اپنا ہر آدمی متحرک کردیا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل
میں اپنے رضاکار ایجنٹوں سے لے کر امریکی کانگریس میں
اپنے مکمل خریدے ہوئے لوگوں تک کے ذریعہ شور مچایاگیا کہ
صدام اپنے ہی آدمیوں کو ہلاک کررہا ہے۔ تصویروں میں
کرد ماؤں کو اپنے مردہ بچوں کو سینہ سے لگائے دکھایاگیا یہ
سب عراقی فوج کے زہریلی گیس کے حملہ کا نتیجہ تھا۔
دوسری طرف کرد بغداد کے خلاف ایک بھرپور گوریلا جنگ میں
مصروف تھے انھیں بھی موساد ہی اسلحہ سپلائی کررہی
تھی اور مشیر بھی دے رہی تھی۔ موساد پریس
کو نام نہاد ”معتبر ذرائع“ کے ذریعہ سے بتارہی تھی کہ کس طرح
صدام اپنے ہاتھوں سے اپنے لوگوں کو ماررہا ہے۔ اور ایرانی شہروں
پر بم برسارہا ہے۔ مگر حقیقت یہ بھی تھی کہ یہ
بم ایرانی شہروں پر امریکی سٹیلائٹ کی مدد سے
برسائے جاتے تھے۔ موساد چاہتی تھی کہ عراقی فوج کی
تباہی امریکہ کے ہاتھوں ہو تاکہ اسرائیل کو اس کا سامنا نہ کرنا
پڑے۔ (صفحہ ۲۶۷-۲۶۸)
(۹) اکتوبر
۱۹۸۳/ میں بیروت
میں امریکی اڈہ پر خودکش حملہ میں ۲۴۱ امریکی بحری سپاہی
ہلاک ہوئے۔ اس حملہ کی اطلاع موساد کو تھی اوراسے حملہ آور کار
کا اور ساخت بھی معلوم تھی مگر اس نے یہ اطلاع امریکی
انٹلی جنس تک نہیں پہنچائی۔ (صفحہ ۲۸۸)
(۱۰)
۱۹۵۰/ میں اسرائیلی وزیر
دفاع پیناس لیون کے حکم پر امریکہ - مصر تعلقات خراب کرنے کے لیے
مصری یہودیوں کا ایک دہشت گرد گروہ مصر میں امریکی
ٹھکانوں پرحملہ کرنے کے لیے بھیجا گیا۔ منصوبہ ناکام ہوگیا۔
دہشت گرد پکڑے گئے۔ (صفحہ ۲۸۸)
(۱۱)
ہمارے
ملک میں ۱۱/۲۶ ممبئی حملہ
کے تناظر میں اِس انکشاف کو خاص طور پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ۱۹۹۱/ میں صدر بش
نے میڈرڈ (اسپین) میں اسرائیل اور عرب ممالک اردن، شام،
مصر کی کانفرنس منعقد کرائی۔ مسٹربش نے کافی دباؤ ڈال کر
اسحاق شمیر کو میز پر آنے کے لیے راضی کیاتھا۔
نتیجتاً موساد نے حکمرانوں کی مرضی بھانپ کر کچھ ایسا
کرنے کو کہا جس سے فلسطینیوں اور امریکیوں میں ہمیشہ
کے لیے دشمنی ہوجائے۔ انھوں نے طے کیا کہ فلسطینیوں
کے ذریعہ اس کانفرنس کے دوران مسٹربش کاقتل کرادیا جائے۔ چونکہ
اسپین میں کانفرنس کی حفاظت کی ذمہ داری بھی
موساد کو ہی کرنی تھی اِس لیے یہ کام مشکل بھی
نہیں تھا۔موساد کے خاص یونٹ ”کدوم“ نے تین فلسطینیوں
کو بیروت میں اپنے ساتھ بلایا۔ اور صحرا میں ایک
کمین گاہ میں منتقل کردیا۔ ان کے نام بیج فین
ہلدے، محمد حسین اور حسین شاہین تھے۔ ساتھ ہی امریکی
صدر کو اصلی اور نقلی دھمکیاں بھی ملنی شروع ہوگئیں۔
دھمکیاں ابوندال گروہ کے نام پر فرضی دی جارہی تھیں۔
ہسپانوی پولیس کو کسی طرح یہ معلوم ہوگیا تھا کہ
دہشت گرد میڈرڈ آرہے ہیں۔ اس خبر کو میں نے (اوسٹروسکی)
کسی طرح امریکہ کے ایک ذریعہ تک پہنچایا جو مسٹر بش
کا قریبی دوست تھا۔ اس نے سیکریٹ سروس کو آگاہ کردیا
اور منصوبہ پر عمل نہیں ہوپایا۔ اور بیچارے ان تینوں
فلسطینیوں کو اسرائیل لے جاکر نیس زیون کے تحقیقاتی
مرکز میں قتل کردیاگیا۔ یہ خبراُس زمانہ میں
مشہور کالم نگار جیک انڈرسن نے لکھی تھی اور خاتون کالم نگار جین
ہنٹرنے بھی کالم لکھا تھا۔ (صفحہ ۳۰۱-۳۰۴)
نوٹ: قابل غور نکتہ یہ
ہے کہ موساد خود ہی محافظ بھی تھی اور خود ہی قتل کا
انتظام بھی کرارہی تھی اور بش کو قاتلوں کے قریب تر لانے
کا موقع بھی وہی بنانے والی تھی۔ اور مزہ کی
بات فلسطینی اپنے تئیں یہ سمجھ رہے تھے کہ وہ ایک
بڑے دشمن کو ختم کرنے والے ہیں اور شاطر یہودی دونوں ہاتھ میں
لڈو رکھے ہوئے تھے۔اگر بش کا قتل ہوجاتا تو پلان یہ تھا کہ یہ تینوں
فلسطینی موساد کے محافظوں کے ذریعہ وہیں شہیدکردئیے
جاتے صرف یہ پتہ چلتا کہ وہ فلسطینی تھے۔ ظاہر ہے امریکی
اور دنیا بھر میں غصہ و نفرت فلسطینیوں کے خلاف بھڑکتا ان
کا کچھ فائدہ بھی نہ ہوتا اور جس کا فائدہ ہوتا وہ کوتوال بھی تھا اور
چور بھی تھا۔ اس واقعہ کی روشنی میں اگر ممبئی
کے ۱۱/۲۶ حادثہ کو دیکھیں
تو حیرت انگیز مماثلت محسوس ہوگی؟
موساد کے جس منحرف افسر اوسٹروسکی کی
کتاب کے یہ اقتباس اوپر دئیے گئے ہیں یہ کتاب پہلے سال ہی
دس لاکھ کی تعداد میں فروخت ہوئی اور دنیا کی پندرہ
بڑی زبانوں (عبرانی کو چھوڑ کر) اور بیس ممالک میں فروخت
ہوئی۔ کنیڈا اور امریکہ میں اس پر عدالتی
چارہ جوئی کے ذریعہ رکاوٹ ڈالنے کی کوشش بھی ہوئی
مگر وہ ناکام ہوگئی۔ کتاب دنیا کے دیگر ممالک میں یہودی
تنظیموں خصوصاً موساد کے طریقہ کار اورنیٹ ورک کی حیران
کن تفاصیل ہیں۔ کس طرح موساد LTTEکو بھی
اسلحہ دیتی رہی اور حکومت سری لنکا کو بھی اسلحہ دیتی
رہی۔ مصر کی حکومت کو بھی مدد کرتی رہی اور
اخوان اور جہادی گروپ کو بھی اسلحہ دیتی رہی۔
قابل غور بات یہ ہے کہ جتنا ہم موساد کے بارے میں جانتے ہیں کیا
ہماری حکومت اور اس کے خفیہ ادارے نہیں جانتے؟ یہ کتاب
انگریزی میں شائع ہوئی ہے اسے کہیں بھی اسرائیلی
چیلنج نہیں کرسکے اور نہ جھٹلاسکے ہیں۔ اس کا مطلب یہ
سب حقیقت ہے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ اسرائیل جو دنیا
میں امریکہ کا سب سے بڑا مدد حاصل کرنے والا ملک ہے جوامریکہ کا
سب سے بڑا نمک خوار ہے وہ اتنا بڑا نمک حرام ہے کہ وہ ضرورت کے لیے اپنے
پالنے پوسنے والے کو بھی ڈس لیتا ہے، تو ہمارے ملک کے سیاستدانوں،
دفاعی ماہرین، ہندوتوا وادی دیش بھگت کس بھروسہ اسرائیل
اور موساد کو بلانے پر آمادہ ہیں۔ جس مکار ریاست نے اپنے آقا کے
خلاف بار بار چالیں چلیں وہ اپنے مفاد کے لیے ہمیں داؤ پر
کیوں نہیں لگائے گا؟
* * *
-----------------------
ماهنامه دارالعلوم ، شماره 03 ، جلد: 93 ربيع الاول 1430 ھ مطابق مارچ 2009ء